تفسير ابن كثير



سورۃ المائده

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ[54] إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ[55] وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ[56]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت، اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ [54] تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں۔ [55] اور جو کوئی اللہ کو اور اس کے رسول کو اور ان لوگوں کو دوست بنائے جو ایمان لائے ہیں تو یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو غالب ہیں۔ [56]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو ﻻئے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وه بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وه نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راه میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواه بھی نہ کریں گے، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت واﻻ اور زبردست علم واﻻ ہے [54] (مسلمانو)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور وه رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں [55] اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وه یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی [56]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے [54] تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں [55] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی کرے گا تو (وہ خدا کی جماعت میں داخل ہوگا اور) خدا کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے [56]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 54، 55، 56،

قوت اسلام اور مرتدین ٭٭

اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہو جائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے۔

جیسے اور آیت میں ہے «وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم» ‏‏‏‏ [47-محمد:38] ‏‏‏‏ اور آیت میں ہے «اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ» [4-النساء:133] ‏‏‏‏ اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ» [14-إبراهيم:19] ‏‏‏‏، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا۔

ارتداد کہتے ہیں، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے کو۔ محمد بن کعب رحمة الله فرماتے ہیں یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے۔‏‏‏‏ حسن بصری رحمة الله فرماتے ہیں خلافت صدیق رضی اللہ عنہ میں جو لوگ اسلام سے پھر گئے تھے، ان کا حکم اس آیت میں ہے۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدہ دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں۔‏‏‏‏

ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ اس کی قوم ہے ۔ [سلسلة احادیث صحیحہ البانی:3368:صحیح] ‏‏‏‏
2354

اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ ” یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں “۔

جیسے فرمایا آیت «اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ» [48-الفتح:29] ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو۔

سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ہے۔ مسکینوں سے محبت رکھنے، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے، صلہ رحمی کرتے رہنے، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت «لاَحَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ» پڑھنے کا، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے ۔ [سلسلة احادیث صحیحہ البانی:2166:صحیح] ‏‏‏‏
2355

ایک روایت میں ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاددہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ مجھے بلا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا؟ میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا۔ میں نے کہا بہت اچھا، فرمایا: اگرچہ کوڑا بھی ہو ۔ یعنی اگر وہ گر پڑے تو خود سواری سے اتر کر لے لینا ۔ [مسند احمد:172/5:ضعیف] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی ہیبت میں آ کر حق گوئی سے نہ رکنا، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے، نہ رزق کو دور کر سکتا ہے ۔ ملاحظہ ہو امام احمد رحمة الله کی مسند۔ [مسند احمد:87/3:ضعیف] ‏‏‏‏

فرماتے ہیں خلاف شرع امر دیکھ کر، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر، خاموش نہ ہو جانا۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی بازپرس ہوگی، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہو گیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا، ” میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا “ ۔ [سنن ابن ماجه:4008،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ ” تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں؟ “ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہے گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا [ابن ماجہ] ‏‏‏‏ [سنن ابن ماجہ:4017،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ایک اور صحیح حدیث میں ہے مومن کو نہ چاہیئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا، یہ کس طرح؟ فرمایا: ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو ۔ [سنن ابن ماجہ:4016،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرمایا ” اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے “۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے؟
2356

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں “۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہو گیا ہے کہ یہ «وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ» سے حال واقع یعنی ” رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں “۔

یہ بالکل غلط ہے، اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہو جائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آ گیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی، [ضعیف] ‏‏‏‏

«وَالَّذِينَ آمَنُوا» سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری ہے۔
2357

ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:12219] ‏‏‏‏

ٹھیک وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ سب آیتیں عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان دار لوگوں کی دوستی پر راضی ہوگئے، اسی لئے ان تمام آیتوں کے آخر میں فرمان ہوا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور با ایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے۔

جیسے فرمان باری ہے آیت «‏‏‏‏كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ» ‏‏‏‏ [58-المجادلة:21-22] ‏‏‏‏ یعنی ” اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، رب ان سے راضی ہے، یہ اللہ سے خوش ہیں، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے “۔

پس جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہو جائے، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے۔ اسی لیے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا۔
2358



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.